Authors
Claim
یہ تصویر حوثیوں کی جانب سے اسرائیل سے وابستہ بحری جہاز کو ڈرون سے نشانہ بنانے کی ہے۔
Fact
یہ تصویر تقربیاً 4 سال پرانی ہے اور حوثیوں کی جانب سے حالیہ اسرائیلی بحری جہازوں کو نشانہ بنائے جانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک بحری جہاز کی تصویر کو اسرائیل اور فلسطین لڑائی سے منسوب کرکے شیئر کیا جا رہا ہے۔ جس میں ایک بحری جہاز سے دھواں اور اس کے اوپر ہیلی کاپٹر نظر آرہا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ تصویر حوثیوں کی جانب سے اسرائیل سے وابستہ بحری جہاز کو ڈرون سے نشانہ بنائے جانے کی ہے۔
تصویر کے ساتھ ایک مستند ایکس ہینڈل نے کیپشن میں لکھا ہے کہ “یمن حدیدہ بندرگاہ سے 60 میل کے فاصلے پر یمن کے حوثیوں نے اسرائیل سے وابستہ ایک اور بحری جہاز پر بمبار ڈرون کشتیوں سے حملہ کردیا۔ شدید فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا ہے”۔
Fact Check/Verification
اسرائیل سے وابستہ بحری جہاز کو ڈرون سے نشانہ بنائے جانے کا بتاکر شیئر کی گئی تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا تو ہمیں اسکرین پر 2019 کو شائع شدہ متعدد میڈیا رپورٹس کے لنک فراہم ہوئے۔ 17 دسمبر 2019 کو شائع شدہ حریت ڈیلی نیوز ویب سائٹ پر ایک رپورٹ میں ہوبہو تصویر ملی۔ جس کے عنوان میں لکھا ہے کہ بحریہ میڈ میں روسی اور شامی حکومت نے مشترکہ مشقیں شروع کردیں۔
ایک اگست 2019 کو شائع ترکیہ کی نیوز ایجنسی انادولو کی ایک رپورٹ میں ہمیں ہوبہو تصویر فراہم ہوئی۔ اس رپورٹ کے عنوان میں لکھا تھا “بحیریہ بالٹک میں روسی فوجی مشق”۔ لیکن تصویر کب اور کہاں کی ہے یہ واضح نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ میڈیا رپورٹس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل سے وابستہ بحری جہاز کو حوثیوں کے لڑاکے سمندر میں مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔ لیکن وائرل تصویر کم از کم 4 سال پرانی ہے۔
Conclusion
لہٰذا نیوز چیکر کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ تصویر حوثیوں کی جانب سے اسرائیل سے وابستہ بحری جہاز کو نشانے کی نہیں ہے، بلکہ یہ تقربیا 4 سال پرانی ہے۔
Result: False
Sources
Reports published by Hurriyet Daily News and Anadolu Agency on 2019
نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبر کی تحقیق، ترمیم یا دیگر تجاویز کے لئے ہمیں واہٹس ایپ نمبر 9999499044 پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے واہٹس ایپ چینل کو بھی فالو کریں۔