جمعہ, مارچ 29, 2024
جمعہ, مارچ 29, 2024

ہومFact Checkعلی راج پور میں لڑکی کے ساتھ ہوئے جنسی ہراساں معاملے میں...

علی راج پور میں لڑکی کے ساتھ ہوئے جنسی ہراساں معاملے میں نہیں ہے کوئی مذہبی رنگ

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے علی راج پور میں لڑکی کے ساتھ جنسی ہراساں کا معاملہ سامنے آیا تھا، جس کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔ ویڈیو میں مردوں کا ایک جھنڈ سڑک کنارے کھڑی لڑکی کے ساتھ جنسی ہراساں کرتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر مذہبی رنگ دے کر بھی شیئر کیا جا رہا ہے۔ ٹویٹر پر ایک صارف نے کیپشن میں لکھا ہے کہ “انڈیا کی مسلمان عورتوں کے ساتھ سلوک دیکھ لو شکر ادا کرو کہ ہم ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں”۔

علی راج پور میں لڑکی کے ساتھ ہوئے جنسی ہراساں کی وائرل ویڈیو کو مذہبی رنگ دے کر کیا گیا شیئر
Courtesy:twitter@ImranKhan2pk

ٹویٹر پر ایک دوسرے صارف نے ویڈیو کے کیپشن میں لکھا ہے کہ “انڈیا میں مودی کے گنڈے سرے عام عورتوں کے ساتھ یہ سب کر رہے ہیں”۔

Fact Check/Verification

علی راج پور میں لڑکی کے ساتھ ہوئے جنسی ہراساں کی وائرل ویڈیو کے ساتھ کئے گئے دعوے کی سچائی جاننے کے لئے ہم نے سب سے پہلے مدھیہ پردیش پولس کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل کو کھنگالا۔ جہاں ہمیں جہاں علی راج پور ڈی ایم کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر وائرل ویڈیو سے متعلق 14 مارچ کو شیئر کیا گیا ایک ٹویٹ ملا۔ جس میں لکھا تھا کہ “جناب وزیراعلیٰ اور مدھیہ پردیش انتظامیہ کے حکم پر علی راج پور پولس نے وال پور بھگوریا میلے میں لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے اہم ملزم کے ساتھ 15 ملزمین کو حراست میں لے لیا ہے”۔ لیکن اس ٹویٹ میں کہیں بھی لڑکی کے مذہب یا طبقے کا ذکر نہیں تھا۔

ٹویٹر ایڈوانس سرچ کے دوران ہمیں علی راج پور کے ایس پی کے ٹویٹر ہینڈل پر مذکورہ وائرل ویڈیو سے متعلق پوسٹ ملے۔ جس میں میلے میں آئی لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے الزام میں 15 ملزمین کی گرفتاری کی بات کہی گئی ہے۔

اس حوالے سے ہم نے گوگل پر کیورڈ کی مدد سے میڈیا رپورٹ سرچ کی۔ اس دوران ہمیں بی بی سی ہندی اور ٹائمس ناؤ ہندی پر شائع 13 و 14مارچ 2022 کی رپورٹس ملیں۔ ان رپورٹس کے مطابق مدھیہ پردیش کے علی راج پور کے بھگوریا ہاٹ میں درجنوں لوگوں نے ایک قبائلی لڑکی(آدیواسی لڑکی) کو سرِ راہ جنسی ہراساں کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ پولس نے معاملے کی تفتیش کے بعد تین اہم ملزمین کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔ اب ان رپورٹس سے واضح ہوچکا کہ وائرل ویڈیو میں جس لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ آدیواسی(قبائلی) طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔

نیوز چیکر کی ٹیم نے اس معاملے میں مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لئے علی راج پور کے ایس پی منوج کمار سنگھ سے فون پر رابطہ کیا اور ان سے وائرل ویڈیو سے متعلق سوال کیا کہ کیا ویڈیو میں جس لڑکی کے ساتھ منچلے لوگ بد سلوکی کر رہے ہیں وہ لڑکی مسلمان ہے؟ جس کے جواب میں ایس پی منوج نے کہا کہ متاثرہ لڑکی آدیواسی طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور جن لوگوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے وہ بھی آدیواسی ہیں۔ اس معاملے میں کسی بھی طرح کا مذہبی رنگ نہیں ہے، جو لوگ مذہبی رنگ دے کر ویڈیو شیئر کر رہے ہیں ان پر سخت کاروائی کی جائے گی۔

Conclusion

اس طرح ہماری تحقیقات میں ثابت ہوتا ہے کہ علی راج پور میں لڑکی کے ساتھ ہوئے جنسی ہراساں معاملے میں کسی بھی طرح کا مذہبی رنگ نہیں ہے۔ دراصل متاثرہ لڑکی آدیواسی خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا مسلمان خاندان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

Result: Misleading Content/ParlyFalse

Our Sources

Tweet post by AlirajpurDM on 14/03/2022
Media Report Published by BBC Hindi on 14/03/2022
Media Report Published by TimesNow Hindi on 13//03/2022
Newschecker talked with SP Manoj kumar Singh Alirajpur,MP

نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔

9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Most Popular