اتوار, اکتوبر 6, 2024
اتوار, اکتوبر 6, 2024

ہومFact Checkگلفشاں فاطمہ کی تصویر کو صفورا زرگر کا بتا کر فرضی دعوے...

گلفشاں فاطمہ کی تصویر کو صفورا زرگر کا بتا کر فرضی دعوے کے ساتھ کیوں کیاجارہا ہے شیئر؟وائرل دعوے کا پڑھیئے سچ

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

دعویٰ

جامعہ ملّیہ کی طالبہ صفورا زرگر کو دہلی ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد الحمدللہ 75دن بعد جیل سے رہائی مل گئی۔

تصدیق

ان دنو سوشل میڈیا پر جامعہ کی طالبہ صفورازرگار کے حوالے سے طرح طرح کی چیزیں وائرل ہورہی ہے۔فیس بک پر شہنوازبدر قاسمی نامی یوزر نے ایک تصویر شیئر کی ہے۔جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ زرگار کو دہلی ہائی کورٹ سے ۷۵دن بعد ضمانت ملی ہے۔آپ کو بتادیں کہ شہنواز اپنے فیس بک پروفائل میں فریلانس جرنلسٹ اور سماجی کارکن لکھا ہوا ہے۔وائرل تصویر کے ساتھ کئے گئے دعوے کو پڑھنے بعد ہم نے فیس بک ایڈیوانس سرچ اور ٹویٹرایڈوانس سرچ کا سہارا لیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ مذکورہ دعوے کے ساتھ اور بھی کوئی تصاویر شیئر کی گئی ہے یا نہیں؟اس دوران ہمیں ٹویٹر اور فیس بک پر ایک تصویر ملی۔جس میں ہندی اور انگلش زبان صفورا کے حوالے پوسٹ ملے۔درج ذیل میں سبھی پوسٹ کے آرکائیو لنک پر کلک کر کے دیکھ سکتے ہیں۔جس کے بعد ہماری تحقیقات کو تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔

صحافی شہنواز بدر کے پوسٹ کا آرکائیو لنک۔

ٹویٹر پر فاطمہ رزنہ نامی یوزر نے ایک دوسری تصویر کو شیئر کیا ہے جو صفورا کی تصویر سے ملتی جلتی ہے۔انہوں دعویٰ کیا ہے کہ “صفورا جب اسلامو فوبیا اور ہندوتوا حکومت جس نے سی اے اے بل پاس کیا ہے۔اس کے خلاف احتجاج کررہی تھی۔تاکہ ہندوستان کی روح کو بچا سکے۔ناکہ انسانی خاتمہ کرنی والی چیزوں کا استعمال کیا۔بلکہ پرامن انداز میں احتجاج کیا”

فاطمہ کے ٹویٹ کا آرکائیو لنک۔

سحر مرغ حرم نامی پیج پر صفورا کے حوالے سے ایک پوسٹ کیا گیا ہے۔جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ “بہن صفورازرگار کی ضمانت،زنجیر تو کٹ جائےگی،ہاں ان کی نشانیں رہ جائیں گے،میرا کیا ہے ظالم تجھکو بدنام کریں گی زنجیریں”آپ کو بتادوں کہ فاطمہ نے جو تصویر شیئر کی ہے وہی اس پیج نے بھی تئیس جون کو کیاتھا۔

سحر مرغ حرم کے پوسٹ کا آرکائیولنک۔

ہماری پڑتال

وائرل پوسٹ کو پڑھنے اور دیکھنے کے بعد ہم نے اپنی ابتدائی تحقیقات شروع کی۔سب سے پہلے ہم نے تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا۔جہاں ہمیں اسکرین پر دیگر تصاویر کے ساتھ ایک خبر بھی نظر آئی۔جس میں وائرل تصویر والی لڑکی کا نام گلفشاں فاطمہ بتایا گیا ہے۔درج ذیل میں موجود اسکرین شارٹ دیکھ سکتے ہیں۔

مذکورہ لنک کو جب ہم نے کلک کیا تو پتا چلاکہ جس ہفتے صفورا کو ضمانت ملی تھی اسی ہفتے گلفشاں فاطمہ کی ضمانت عرضی کو خارج کردیا گیا تھا۔یہاں واضح ہوگیا کہ وائرل تصویر میں نظر آرہی لڑکی صفورازرگر نہیں ہے بلکہ وہ گلفشاں فاطمہ ہے۔ شہنواز نے پچھہتر دن بعد جیل سے رہائی کا دعویٰ کیا ہے۔جب ہم نے اس کی تحقیقات کی تو ہمیں نیوزایٹین ہندی اور بھاسکر نیوز پر خبریں ملیں۔دونوں خبروں کے مطابق دس اپریل بروز جمعہ کے دن صفورازرگر کو دہلی پولس نے گرفتار کیا تھا۔اس حساب سے دیکھا جائے تو ایک سو پانچ دن بعد صفورا کو جیل سے رہائی ملی ہے۔اس سے صاف واضح ہوا کہ شہنواز نے گمراہ کن دعویٰ کیا ہے۔

مذکورہ جانکاری کے بعد ہم نے گلفشاں کے حوالے سے کچھ کیورڈ سرچ کیا۔جہاں ہمیں انقلاب نیوز اور قومی آواز نامی ویب سائٹ پر گلفشاں کے حوالے سے کچھ خبریں ملیں۔انقلاب نیوز اور قومی آواز کے مطابق گلفشاں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں پیش پیش تھیں۔ جس کے بعد انہیں لاک ڈاؤن کے دوران دہلی فساد میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرکے گرفتار کرلیاگیا تھا۔ واضح رہے کہ گلفشاں کی عمر اٹھائیس سال ہے اور وہ ایم بی اے کی طالبہ ہیں۔وہیں گلفشاں پنجرہ توڑ نامی تنظیم سے وابستہ بھی ہیں۔

ان سبھی تحقیقات کے باوجود ہمیں تسلی نہیں ملی تو ہم نے سوچا کیوں نہ صفورا اور گلفشاں کی تصاویر کو ایک فریم میں کر کے اپنے قاری کے سامنے پیش کیا جائے۔تاکہ ہمارے قاری کو اطمینان ہوسکے کہ وائرل تصویر صفورا کی نہیں ہے بلکہ گلفشاں کی ہے۔

نیوزچیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرل تصویر جامعہ کی طالبہ صفورازرگر کی نہیں ہے بلکہ گلفشاں فاطمہ کی ہے۔البتہ ہماری تحقیقات میں یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ گلفشاں کی ضمانت عرضی کو خارج کردیا گیا ہے۔


ٹولس کا استعمال

ریورس امیج سرچ

کیورڈ سرچ

فیس بک اورٹویٹر ایڈوانس سرچ

نتائج:گمراہ کن

نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویزکے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔۔

 9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular