Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
کیرلہ میں ایک اور لڑکی لو جہاد کی شکار ہوگئی ہے۔ہرلڑکی شروع میں یہی کہتی ہے کہ میرا عبدل باقی مسلمانوں کی طرح نہیں ہے۔جب لڑکیوں کی آنکھوں سے پردہ ہٹ تا ہے تب ان کے پاس صرف 3 آپشن بچتےہیں۔چاہے انہیں سوٹکیس میں دفنادیا جاتا ہے ، فروخت کردی جاتی ہے یا پھر وہ بچہ پیدا کرنے والی مشین بن جاتی ہیں۔
زخموں کی شکار خاتون کے حوالے سے کیا ہے وائرل دعویٰ؟
غداروں نا باپ رام فیس بک پیج پر 22ستمبر کو 3تصاویر والا کولاج پوسٹر شیئر کیا گیا تھا۔جس میں ایک لڑکی لڑکے کے ساتھ کھڑی ہے اور دوسری تیسری تصاویر میں چہرے پر لگی چوٹ والی تصویر ہیں۔یوزر کا دعویٰ ہے کہ کیرلہ کی غیر مسلم لڑکی نے مسلمان لڑکے سے شادی کی۔اس کے بعد لڑکے نے لڑکی کو مارا پیٹا۔مطلب یہ کہ پورا معاملہ لوجہاد(LoveJihad)کا ہے۔کافی لوگ ایک ماہ پہلے بھی ان تصاویر کو شیئر کر چکے ہیں۔درج ذیل میں سبھی کے آرکائیو موجود ہیں۔
غداروں نا باپ رام کے پوسٹ کا آرکائیو لنک۔
وائرل تصاویر کو ٹویٹر پر سندیپ راجنیوال نے مذکور ہ دعوے کے ساتھ 28جولائی 2020کو شیئر کیا تھا۔جسے بی جے پی لیڈر کپل مشرانے بھی ری ٹویٹ کیا تھا۔آرکائیو لنک۔
Fact Check/Verification
وائرل تصاویر کی حقائق جاننے کےلئے ہم نے کچھ اہم ٹولس کا استعمال کیا۔جہاں ہمیں کچھ بھی اطمینان بخش نہیں ملا۔پھر ہم نے کچھ کیورڈ سرچ کیا۔جہاں ہمیں وائرل تصویرکے ساتھ ڈھاکہ ٹریبیون پر شائع 24جون 2020 کی ایک خبر ملی۔جوبنگلہ زبان میں تھی۔ہم نے اپنی ساتھی کی مدد سے اس خبر کا ترجمہ کروایا تو پتاچلا یہ معاملہ بنگلہ دیش کا ہے۔جہاں شوہر اور سسرال والوں نے لڑکی کو جہیز کی خواہش میں جم کر مارا پیٹا۔لڑکی کا نام سمیہ حسن ہے۔
مذکورہ خبر سے واضح ہوچکا کہ وائرل تصاویر ہندوستان کے کیرلہ کی نہیں ہے۔بلکہ بنگلہ دیش کی ہے۔پھر ہم نے انگلش میں کچھ کیورڈ سرچ کیا۔اس دوران ہمیں ڈھاکہ ٹریبیون کے انگلش نیوز ویب سائٹ پر زخموں والی تصویر کے ساتھ شائع 27جون کی ایک خبر ملی۔جس میں صاف طور پر لکھا ہوا تھا کہ ڈھاکہ کی ایک خاتون نے اپنے فیس بک پر اپنے ساتھ ہوئےگھریلو تشدد کو بیان کیاہے۔جو بہت ہی دل خراش انداز میں تھا۔لڑکی کے سسرال والوں نے جہیز کی وجہ سے اسے اتنا مارا پیٹا کہ شکل تک بگڑ گئی۔
پھر ہم نے سوشل میڈیا پر سمیہ حسن کے پوسٹ کو تلاشا۔جہاں ہمیں سمیہ حسن کا پوسٹ ملا ۔جس میں رومن انگلش میں بنگلہ زبان کا استعما کر کےاپنے اوپر ہوئے ظلم و ستم کو عوام کے سامنے پیش کی ہے۔
Conclusion
نیوزچیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرل تصاویر کا لوجہاد اور ہندوستان کے کیرلہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔بلکہ یہ تصویر بنگلہ دیش کی سمیہ حسن نامی لڑکی کی ہے۔رپوٹ سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ سمیہ حسن نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا ہے۔
Result: Misplaced ContextFalse
Our Sources
Bangla:https://bangla.dhakatribune.com/bangladesh/2020/06/27/24726/——-
Facebook:https://www.facebook.com/sumaiya.hasan.77920/posts/295953598225028
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.