منگل, اکتوبر 22, 2024
منگل, اکتوبر 22, 2024

ہومFact CheckFact Check: بہرائچ کے فخر پور کے انسداد تجاوزات مہم کی ویڈیو...

Fact Check: بہرائچ کے فخر پور کے انسداد تجاوزات مہم کی ویڈیو کو فرقہ وارانہ تشدد سے منسوب کرکے شیئر کیا جا رہا ہے

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Claim
بہرائچ کے وزیر گنج میں حکومت کی جانب سے چلائی گئی بلڈوزر کاروائی کی ویڈیو۔
Fact
یہ ویڈیو بہرائچ کے فخر پور میں چلائی گئی انسداد تجاوزات مہم کی ہے اور وہاں چل رہے حالیہ تنازعہ سے پہلے کی ہے۔

سوشل نٹورکنگ سائٹس فیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام اور ایکس پر ارض و فضاء سے فلمائی گئی منہدم عمارتوں کی ایک ویڈیو کو مختلف کیپشن کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔ صارفین اس ویڈیو کو 13 اکتوبر کو بہرائچ کے مہاراج گنج علاقے میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد سے منسوب کر رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ بہرائچ فرقہ وارانہ تشدد کے بعد اتر پردیش حکومت یکطرفہ کاروائی کرتے ہوئے مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کر رہی ہے۔

ویڈیو کے ساتھ ایکس صارف نے کیپشن میں لکھا ہے “یہ غزہ نہیں ہے بلکہ وطن عزیز ہندوستان کے صوبہ یوپی کا بہرائچ ضلع ہے، جہاں یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کردیا اور سینکڑوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ اللہ بہرائچ کے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے”۔

یہ ویڈیو پرانی اور بہرائچ کے فخر پور کے انسداد تجاوزات مہم کی ہے۔
Courtesy: X @isakhan_azmi

فیس بک صارفین نے منہدم عمارتوں والی ویڈیو کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے “یوپی کے بہرائچ میں یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کردیا اور سینکڑوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ اللہ بہرائچ کے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے”۔ ایک دوسرے صارف نے لکھا ہے “اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ ویڈیو لبنان یا غزہ کی ہے تو آپ غلط ہیں، یہ بہرائچ کے اسی گاؤں کی ہے جہاں الیکشن کا چولہا جل گیا ہے”۔

یوٹیوب صارف نے ویڈیو کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے “یہ ویڈیو فلسطین غزہ کی نہیں بلکہ یوپی بہرائچ کے وزیر گنج کے 23 مظلوم مسلمانوں کے مکان کی ہے”۔

Courtesy: YouTube/ پیارا اسلامی تعلیمات چینل

قومی آواز کی ایک رپورٹ کے مطابق “اترپردیش کے بہرائچ کے مہاراج گنج میں 13 اکتوبر کو عقیدت مند دُرگا کی مورتی وسرجن کے لئے لے جا رہے تھے اور اس دوران ڈی جے پر بلند آواز میں گانا بھی بجایا جا رہا تھا، جس پر دوسری برادری کی عوام نے اعتراض ظاہر کیا۔ اس دوران 22 سال کے رام گوپال مشرا کی گولی لگنے سے موت واقع ہوئی، کئی افراد زخمی بھی ہوئے تھے”۔

اس واقعے کے بعد “بے قابو بھیڑ نے شدید توڑ پھوڑ کی اور مکانوں، دکانوں، اسپتالوں اور گاڑیوں کو آگ کے حوالے کردیا”۔ جس کے بعد حکومت کی جانب سے مہاراج گنج میں 23 گھروں پر بلڈوزر کاروائی کے لئے نوٹس چسپاں کیا گیا ہے، جن میں 20 مسلمانوں کے اور 3 ہندوؤں کے گھر ہیں۔ حالانکہ الہٰ آباد ہائی کورٹ نے 15دنوں کیلئے اس پر روک لگا دی ہے اور اس معاملے میں عرضی سپریم کورٹ میں بھی داخل کی گئی ہے۔

Fact Check/Verification

مہاراج گنج علاقے میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد سے منسوب مہندم عمارتوں کا بتاکر شیئر کی گئی ویڈیو کے ایک فریم کو گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں “جگدیش سنگھ055” نامی ایکس اکاؤنٹ سے شیئر شدہ ہوبہو ویڈیو کے جواب میں کئے گئے بہرائچ پولس کے ٹویٹس موصول ہوئے۔ جس میں وائرل ویڈیو کے ساتھ کئے گئے دعوے کو گمراہ کن بتایا گیا، ساتھ ہی اس ویڈیو کو شیئر کرنے والے صارف کے خلاف قانونی کاروائی کی ہدایت دی گئی ہے۔ مزید بہرائچ پولس نے اس ویڈیو کو عدالت کے حکم پر 25.09.24 کو اترپردیش کے بہرائچ ضلع کے فخر پورے میں چلائی گئی انسداد تجاوزات مہم کا بتایا ہے۔

Courtesy: X@bahraichpolice

اس حوالے سے ہمیں متعدد میڈیا رپورٹس بھی موصول ہوئیں۔ ان رپورٹس میں بھی ویڈیو کو بہرائچ کے فخر پور کا بتایا گیا ہے۔ جسے آپ یہاں اور یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

Courtesy: Zee News

Conclusion

نیوز چیکر کو آن لائن ملنے والے شواہد سے یہ ثابت ہوا کہ وائرل ویڈیو کے ساتھ کیا گیا دعویٰ گمراہ کن ہے۔ دراصل یہ ویڈیو بہرائچ کے مہاراج گنج میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد سے منسوب مہندم عمارتوں پر بلڈوزر کاروائی سے نہیں ہے، فی الحال عدالت نے اس پر روک لگا دی ہے۔ دراصل یہ معاملہ بہرائچ کے فخر پور میں گزشتہ ماہ انسداد تجاوزات مہم کے دوران توڑے گئے گھروں کا ہے۔

Result: Partly False

Sources
X post by @bahraichpolice on 19 Oct 2024
Reports published by Zee News and ABP News on


نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبر کی تحقیق، ترمیم یا دیگر تجاویز کے لئے ہمیں واٹس ایپ نمبر 9999499044 پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے واٹس ایپ چینل کو بھی فالو کریں۔

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular