جمعہ, نومبر 22, 2024
جمعہ, نومبر 22, 2024

HomeFact Checkامریکی اخبار نے پاکستانی عدلیہ کا توہین آمیز کارٹون شائع نہیں کیا...

امریکی اخبار نے پاکستانی عدلیہ کا توہین آمیز کارٹون شائع نہیں کیا ہے

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

سوشل میڈیا پر ایک کارٹون والی تصویر وائرل ہو رہی ہے۔ کارٹون سے متعلق دعویٰ ہے کہ امریکی اخبار نے پاکستانی عدلیہ سے جوڑکر کارٹون شائع کیا ہے۔ جس میں ایک کارٹون اپنے دانتوں سے کاغذ کا ٹکڑا پکڑے ہے اور اس پر انگلش میں “نو کانفیڈنس، اپروڈ” لکھا ہے اور ہاتھ میں لکڑی کا ہتھوڑا لئے ہوئے ہے۔ اس کے سامنے پاکستانی پرچم والے پیالے میں ہڈی رکھی ہے، امریکی پرچم پہنے سامنے کھڑا کارٹون جج والے کارٹون کے سر پر ہاتھ رکھ کر گڈ بوائے کہہ رہا ہے۔ جس کے نیچے لکھا ہے، نیو یارک ہیرالڈ کے پیپر میں شائع کارٹون میں پاکستانی عدلیہ کو امریکہ کا تابعدار دکھایا گیا ہے۔

امریکی اخبار نے پاکستانی عدلیہ کو نیچا دکھانے والا کارٹون شائع نہیں کیا ہے
Courtesy:Twitter@PTI_1k

وائرل کارٹون کی تصویر کو پاکستانی عدلیہ سے جوڑکر صارفین مختلف کیپشن کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔ ایک ٹویٹر صارف نے کیپشن میں لکھا ہے کہ “نیویارک ٹاٸم میں چھپنے والا یہ کارٹون پاکستان کی توہین ہے قاٸد اور اقبال کے ملک کا قاضی خرید کر امریکہ نے پردہ بھی نہ رکھا، اپنے ہی اخبار میں کارٹون چھاپ کر پاکستان کو امریکہ پیغام دے رہا ہے کہ تم ہمارے غلام ہو تمہارے جج، جرنل، وکیل اور دلیل ہم سب خرید سکتے ہیں”۔

Courtesy:Twitter@AwaisAk88062388

ٹویٹر پر وائرل پوسٹ کا آرکائیو لنک یہاں، یہاں اور یہاں دیکھیں۔

فیس بک پر وائرل کارٹون کی تصویر کو پاکستانی عدلیہ سے جوڑ کر کتنے صارفین نے شیئر کیا ہے، یہ جاننے کے لئے ہم نے کراؤڈ ٹینگل پر کیورڈ سرچ کیا تو ہمیں پتا چلا کہ اس موضوع پر پچھلے 7 دنوں میں 40 پوسٹ شیئر کئے گئے ہیں اور 628 فیس بک صارفین نے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

Screen shot of Crowdtangle

Fact Check/Verification

وائرل کارٹون کی تصویر کو امریکی اخبار نے پاکستانی عدلیہ سے جوڑکر شائع کیا ہے، اس دعوے کے ساتھ وائرل تصویر کو ہم نے ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں لاٹوف کارٹونس نامی آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر اس سے ملتی جلتی تصویر ملی۔ تصویر کے ساتھ کیپشن میں لاٹوف کارٹونس نے لکھا ہے کہ برطانیہ نے لمبے عرصے سے وائٹ ہاؤس کے مفادات کے لئے کام کیا ہے۔ جولین اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے کی برطانیہ کی عدالت کی منظوری برطانیہ کی چاپلوسی کا پختہ ثبوت ہے۔ اس پوسٹ پر منٹ پریس نیوز، ویکی لیکس اور ڈبلو ایل آرٹ فورس کو ٹیگ کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ کارلس لاٹوف نے اپنی بنائی کارٹون اور وائرل کارٹون والی تصویر کو بھی شیئر کیا اور لکھا ہے کہ اس طرح سے کسی کی بنائی چیز کے ساتھ ترمیم کرنا بیمانی ہے۔

وائرل تصویر اور اصل تصویر کا موازنہ

ہم نے جب منٹ پریس نیوز نام کو فیس بک اور ٹویٹر پر تلاشنا شروع کیا تو ہمیں ہو بہو وائرل کارٹون والی تصویر ملی۔ لیکن اس تصویر میں نا تو نیچے رکھے پیالے پر پاکستانی پرچم بنا تھا اور ناہی دانتوں سے پکڑے کاغذ میں نو کانفیڈنس لکھا تھا۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اصل کارٹون کی تصویر منٹ پریس نیوز نے شائع کی تھی، جسے دیگر سوشل میڈیا صارفین نے ایڈیٹ کرکے شیئر کیا ہے۔ مندرجہ بالا میں دونوں تصاویر کا موازنہ دیکھ کر فرق واضح کیا جا سکتا ہے۔

تصویر کے ساتھ دی گئی جانکاری کے مطابق اس کارٹون کو لیکس کے بانی جولین اسانج کو سزا ملنے کے بعد کارلس لاٹوف نے امریکی عدلیہ کے خلاف بنایا تھا۔ تحقیقات سے یہ بھی پتا چلا کہ دی نیو یارک ہیرالڈ نامی اخبار 1924 میں ہی بند ہو چکا ہے۔

Conclusion

نیو چیکر کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرل کارٹون کی تصویر جسے پاکستانی عدلیہ سے جوڑ کر شیئر کیا گیا ہے، وہ تصویر ترمیم شدہ ہے۔ دراصل یہ کارٹون لیکس کے بانی جولین اسانج کو سزا ملنے کے بعد کارلس لاٹوف نے بنایا تھا۔

Result: Manipulated Media/Altered Photo

Our Sources

Twitter Post by @LatuffCartoons on 22/04/2022
Facebook Post by Mint Press News on 22/04/2022
Report Published by Britannica.com

نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular