پیر, اپریل 29, 2024
پیر, اپریل 29, 2024

ہومFact CheckFact Check: کیا پرتگال میں 5000 مسلمانوں کی کھوپڑیوں اور ڈھانچوں سے...

Fact Check: کیا پرتگال میں 5000 مسلمانوں کی کھوپڑیوں اور ڈھانچوں سے بنا چرچ سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا ہے؟ پوری حقیقت یہاں پڑھیں

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Claim
پرتگال میں 5000 مسلمانوں کی کھوپڑیوں اور ڈھانچوں سے بنا ہوا چرچ سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔
Fact
کپیلا ڈوس سوس نامی اس چیپل کو عیسائی قبرستانوں سے نکالے گئے ڈھانچوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ تصویر کے ساتھ کیا گیا دعویٰ بے بنیاد ہے۔

سوشل نٹورکنگ سائٹس فیس بک اور ایکس پر ایک تصویر خوب شیئر کی جا رہی ہے۔ جس کی دیواروں میں انسانی ڈھانچے اور کھوپڑیاں نظر آرہی ہیں۔ صارفین کا دعویٰ ہے کہ پرتگال کے شہر “ایؤرا” میں 5000 مسلمانوں کی کھوپڑیوں اور ڈھانچوں سے بنا چرچ سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ چرچ کو پوپ “فرانسس کانی” نے اندلس میں مارے گئے مسلمانوں کی کھوپڑیوں اور انکی ہڈیوں سے تعمیر کیا تھا۔

ایک فیس بک صارف نے تصویر کے ساتھ لکھا ہے کہ “مسلمانوں کی کھوپڑیوں اور ڈھانچوں سے بنے چرچ کو سیاحوں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ اس کلیسا کا نام کپیلا ڈوس سوس ہے۔ یہ پرتگال کے شہر “ایوارا” میں ہے۔ اس کو پوپ “فرانسس کانی” نے مکمل طور پر اندلس میں مارے گئے مسلمانوں کی کھوپڑیوں اور انکی ہڈیوں سے تعمیر کیا۔ اس کی دیواروں پر دو بچوں کی خشک لاشیں لٹک رہی ہیں جن کو گلہ گھونٹ کر قتل کرکے سکھایا گیا تھا۔

اس کو بنانے کے لئے 5 ہزار مسلمانوں کے ڈھانچوں کو استعمال کیا گیا، جن کو سقوطِ اندلس کے بعد نصرانیت قبول نہ کرنے پر قتل کیا گیا تھا۔ مسلمانوں اس چرچ کو دیکھ کر ہی سبق حاصل کرو کہ یہ یہود و نصاریٰ تمھارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ انکی دوستیاں چھوڑ دو۔ انکی باتوں میں آکر اپنوں پر ہتھیار نہ اٹھاٶ۔ اسی میں ہم سب کی اور پوری امتِ محمدیہ کی بہتری ہے”۔

کپیلاڈوس سوس نام کے اس چیپل کو پرتگال میں 5000 مسلمانوں کی کھوپڑیوں اور ڈھانچوں سے تعمیر کرنے دعویٰ بے بنیاد ہے۔
Courtesy: Facebook/ indiansufichannel
Courtesy: X @Sahibzadaf97_

Fact Check/Verification

پرتگال میں 5000 مسلمانوں کی کھوپڑیوں اور ڈھانچوں سے بنا چرچ کھولے جانے والے دعوے کے ساتھ وائرل تصویر کو سب سے پہلے ہم نے ریورس امیج سرچ کیا۔ جہاں ہمیں ٹریول ان پرتگال نامی ویب سائٹ پر ہوبہو تصویر ملی۔ جس سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ تصویر پرتگال کے ایؤرا میں بنے “ہڈیوں کا چیپل” نامی چرچ کی ہے۔ جسے فرانسیسکن راہبوں نے 5000 کھوپڑیوں اور ڈھانچوں سے تعمیر کروایا تھا۔

Courtesy: Travel in Portugal

مزید سرچ کے دوران ہمیں لونلی پلانیٹ آف ٹریول، وزیٹ پرتگال اورلائیو سائنس ویب سائٹس پر وائرل تصویر سے متعلق معلومات فراہم ہوئیں۔ ان ویب سائٹس کے مطابق اس چرچ کو تین فرانسیسکن راہبوں نے سترہویں صدی میں قبرستان میں جگہ کی قلت ہونے پر سالوں پہلے دفن کئے گئے مردوں کی ہڈیوں اور کھوپڑیوں کو چرچ میں چنوا دیا۔ اس سے ان کا دو مقصد پورا ہوا۔ پہلا قبرستان میں جگہ بڑھ گئی اور دوسرا ان کے عقیدے کے مطابق قیامت کے دن ہڈیوں کو محفوظ رکھنے کا مقصد پورا ہو گیا۔

Courtesy:Live Science

ایگریجا ساؤ فرانسیسکو اور وزیٹ ایوارا ڈاٹ نیٹ پر دی گئی جانکاری کے مطابق پرتگال کے چیپل کپیلا ڈوس سوس کی دیواریں احتیاط سے ترتیب دی گئی ہیں اور براؤن سیمنٹ سے انہیں جوڑا گیا ہے۔ دیوار میں سجائے گئے انسانی ڈھانچے چرچ کے ارد گرد موجود مقبروں، گرجا گھروں اور عیسائی قبرستانوں سے جمع کی گئی تھی۔ یہاں واضح ہوگیا کہ یہ چرچ 5000 مسلمانوں کی کھوپڑیوں اور ڈھانچوں سے نہیں بنایا گیا ہے۔

Conclusion

لہٰذا نیوز چیکر کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ پرتگال میں 5000 مسلمانوں کی کھوپڑیوں اور ڈھانچوں سے بنے چرچ والا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ کپیلاڈوس سوس نامی اس چیپل کو عیسائی قبرستانوں سے نکالے گئے ڈھانچوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔

Result: Partly False

Sources
Reports published by Travel-in-Portugal, Lonely planet, Visit evora, Igreja são Francisco and Live science


نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبر کی تحقیق، ترمیم یا دیگر تجاویز کے لئے ہمیں واہٹس ایپ نمبر 9999499044 پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے واہٹس ایپ چینل کو بھی فالو کریں۔

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Most Popular