Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
دعویٰ
اسلام میں نکاحِ متعہ نام سے ایک رواج جاری ہے۔کسی بھی عورت کو کم وقت ،کچھ گھنٹوں یا کچھ دنوں کے لئےبیوی بنا لینا اور اس عورت کے ساتھ ہمبستری کرنے کے بعد الگ کردینے کو متعہ کہتے ہیں۔
تصدیق
ان دنوں سوشل میڈیا پر اسلام کو لے کر گمراہ کن باتیں شیئر کی جارہی ہے۔سنجے پٹیل نامی ٹویٹر یوزرس نے نکاح متعہ کے سلسلےمتنازعہ الفاظ کا استعمال کیا ہے۔سنجےنے اپنے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ اسلام میں متعہ نام سے ایک رواج ہے۔جس میں کسی بھی خاتون سے وقتی شادی کرنا اور پھر اس سے خواہشات پوری ہونے کے بعد آزاد کردیا جاتاہے۔سنجے کے اس ٹویٹ کو ہزاروں افراد نے لائک اور ری ٹویٹ کیاہے۔
इस्लाम में “मुता” नाम से एक प्रथा चालू है
किसी भी स्त्री को थोड़े समय के लिए कुछ घंटों या दिनों के लिए बीबी बना लेना और उससे विषयभोग करना तथा फिर सम्बन्ध विच्छेद करके त्याग देना “मुता” कहलाता है | pic.twitter.com/aC1wiMdyPc— संजय पटेल (@HinduVicharManc) October 30, 2019
ہماری تحقیق
ٹویٹر پر وائرل پوسٹ کو پڑھنے کے بعد ہم نے اپنی تحقیق شروع کی۔اس دوران ہمیں بی بی سی اردو پر تئیس مئی دوہزار تیرہ کی ایک خبر ملی۔جہاں یہ لکھا ہوا ملا کہ برطانیہ میں نكاحِ متعہ کا رواج بڑھ رہاہے۔ اس موضوع پر برطانیہ کی اسلامک شریعہ کونسل کی ترجمان اور ایک سنی مسلمان خولہ حسن کہتی ہیں کہ نکاحِ متعہ کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ اُن کے مطابق یہ جسم فروشی کے مترادف ہے۔
شروعاتی تحقیقات میں جو جانکاری ملی وہ ذرا اٹپٹی تھی۔ اس لئے ہم نے سوچا کیوں نہ شریعت کی نظر سے دیکھا جائے کہ اس کی کیاحقیقت ہے؟ کیا سچ میں اسلام میں نکاح متعہ کا رواج آج بھی جاری ہے؟اگر ایسا ہے تو کہاں اور کون سے ممالک یا مسلمانوں کے کونسے فرقے میں متعہ کا رواج آج بھی جاری ہے۔پھر ہم نے اس مسئلے کو جاننے کے لئے علماء دین اور شعیہ حضرات سے جانکاری حاصل کی۔جہاں پتہ چلا کہ حنفی مسلک میں متعہ حرام ہے اور شیعہ میں ایک خاص فرقہ رافضی ان کا یہ عقیدہ ہے کہ طے مدت کے ساتھ نکاح جائزہے۔مطلب یہ کہ شیعوں میں متعہ کا رواج آج بھی ہے۔لل٘ن ٹاپ کے ویب سائٹ پر اس تعلق سے ایک خبر ملی۔جس میں لکھا ہے کہ متعہ کے لیے موٹی رقم مہر کے طور پر لڑکی کو دی جاتی ہے۔
تحقیقات کے دوران ملی جانکاری سے تسل٘ی نہیں ملی تب ہم نے کیورڈ کا استعمال کیا۔جہاں ہمیں اس تعلق سے ڈھیڑ سارے ویب سائٹ ملے۔۔
ان تحقیقات کے باوجود مزید جانکاری حاصل کرنے کے لئے ہم نے مختلف گوگل کیورڈ کا استعمال کیا۔تب ہمیں دارالافتاء دارالعلوم دیوبند(انڈیا) اور دی فتویٰ )(لاہورپاکستان) اسلام سوال وجواب کے نام سے ویب سائٹس ملے۔جہاں شریعت کی روشنی میں مسلمان کے علاوہ سبھی مذاہب کے سوال کا جواب دیا جاتاہے۔ جوبھی اسلام کے بارے میں جانناچاہتا ہے۔بتاتا چلوں کہ ان ویب سائٹس پر کچھ سوالوں کے جواب پہلے سے موجود ہے۔واضح رہے کہ متعہ کہ سلسلے میں لکھا ہے کہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جنگ خیبر سے پہلے متعہ حلال تھا پھر جنگ خیبر کے موقع پر متعہ حرام کر دیا گیا۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر تین دن کے لیے متعہ حلال کر دیا گیا اور اس کے بعد اس کو دائما حرام قرار دیا گیا۔بقیہ مذکورہ بالا لنک پر کلک کرکے جانکاری حاصل کی جاسکتی ہے۔
تمام تر تحقیقات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سنجے پٹیل نے جو متعہ کو لےکر پوسٹ کیا ہے وہ گمراہ کُن ہےاور اسے اسلام کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں ہے۔نیوز چیکر کی تحقیق میں بھی یہ ثابت ہوا ہے کہ صرف شیعہ فرقہ میں متعہ جائز ہے۔بقیہ سارے علماء دین کے نزدیک متعہ حرام ہے۔
ٹولس کا استعمال
گوگل سرچ
گوگل کیورڈ سرچ
نتائج:گمراہ کُن
نوٹ:۔ اگر آپ ہمارے ریسرچ پر اتفاق نہیں رکھتے ہیں یا آپ کے پاس ایسی کوئی جانکاری ہے جس پر آپ کو شک ہےتو آپ ہمیں نیچے دی گئی ای میل آڈی پر بھیج سکتے ہیں۔
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.