جمعہ, دسمبر 20, 2024
جمعہ, دسمبر 20, 2024

HomeFact Checkتھائی لینڈ ٹَک بائی واقعے کی تصویر کو برما کے مسلمانوں کا...

تھائی لینڈ ٹَک بائی واقعے کی تصویر کو برما کے مسلمانوں کا بتا کر کیا جارہاہے سوشل میڈیا پر شیئر

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

سلیم اختر نامی فیس بک یوزر نے فل دیسی ماحول نامی پیج پر ایک تصویر شیئر کی ہے۔تصویر میں نیم برہنہ لوگوں کی بھیڑ نظرآرہی ہے۔جو پولس کی گرفت میں ہیں۔یوزر نے لکھا ہے کہ “صرف ایک منٹ برما کے مسلمانوں کےلئے۔یا اللہ برماکے مسلمانوں کی مدد فرما،آمین لکھ کر شیئر کریں“۔

تھائی لینڈ ٹَک بائی واقعے کی تصویر کو برما کے مسلمانوں کا بتا کر کیا جارہاہے سوشل میڈیا پر شیئر

سلیم اختر کے فیس بک پوسٹ کاآرکائیو لنک ۔

اس کے علاوہ دیگر کئی یوزرس نے اس تصویر کو مذکورہ دعوے کے ساتھ شیئر کیا ہے۔

https://www.facebook.com/102580241762098/photos/a.102583208428468/120599516626837/

شاہین دوتانی پیج کے پوسٹ کاآرکائیو لنک۔

https://www.facebook.com/103426588428751/photos/a.103611241743619/109970364441040/

Fact Check/Verification

وائرل تصویر کے ساتھ لکھے ہوئے کیپشن کو جب ہم نے فیس بک اور ٹویٹر ایڈوانس سرچ کیا تو ہمیں فیس بک پر عربی اور اردو زبان میں مختلف کیپشن کے ساتھ تصویر ملی۔جسے 13جنوری 2020 اور 25دسمبر 2019 کو شیئر کیا جاچکا ہے۔دونوں پوسٹ کے آرکائیو لنک درج ذیل ہیں۔

ہردل کی آواز پاکستان زند آباد کے پوسٹ کاآرکائیو لنک۔

ربیع جاد ابوعمر کے پوسٹ کاآرکائیو لنک۔

https://www.facebook.com/photo.php?fbid=581192999379999&set=a.154183892080914&type=3

وائرل تصویر کی کیا ہے اصل حقیقت ؟

وائرل تصویر کی سچائی جاننے کےلئے ہم نے ریورس امیج سرچ کیا ۔اس دوران ہمیں پاکستان کی معروف نیوز ویب سائٹ ڈون پر26فروری 2019 کی ایک خبر ملی۔جس میں وائرل تصویر کے ساتھ ایک خبر شائع کی گئی ہے۔جس کے مطابق تھائی لینڈ کے ٹک بائی پولس اسٹیشن کے اہلکاروں نے مظاہرین کو گرفت میں لے رکھا ہے۔وہیں الجزیرہ پر شائع 25اکتوبر 2019 کی خبر ملی۔جس میں بھی وائرل تصویر کو اے ایف پی کا حوالہ دےکر تھائی لینڈ ٹک بائی واقعے کا بتایا گیا ہے۔

ڈون نیوز کا آرکائیو لنک۔

الجزیرہ نیوز کا آرکائیو لنک۔

پھر ہم نے ٹک بائی واقعے کے حوالے سے کچھ کیورڈ سرچ کیا۔جہاں ہمیں اے ایف پی کے نیوز ویب سائٹ پر وائرل تصویر کے حوالے سے اصل خبر ملی۔رپوٹ کے مطابق تھائی لینڈ میں مسلمانوں نے تھائی پولس کی جانب سے اپنے اوپر ہورہے ظلم کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں ٹک بائی پولس اسٹیشن کے پولس اہلکاروں اور فوجیوں نے مظاہرین کو گرفتار کر لیا تھا. جس میں درجنوں لوگ زخمی ہوےَ تھے اور دم گھٹنے کی وجہ سے کافی لوگوں کی موت بھی ہوئی تھی۔یہ واقعہ 25 اکتوبر 2004 کو پیش آیا تھا۔

آرکائیو لنک

یہاں ایک بات بتا دینا مناسب ہے کہ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی گزشتہ کئی سالوں سے کی جارہی ہے۔میڈیا رپوٹ کی مانیں تو 2017میں تقریباً 7 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو اس وقت فوج کی ظلم و زیادتی سےبچنے کےلئےمیانمار کی مشرقی ریاست راکھین سے فرار کر سرحد پار پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا،فوج نے آبادیوں کو جلا کر راکھ کیا اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیں۔

Conclusion

نیوزچیکر کی تحقیقات میں پتا چلا کہ وائرل تصویر کا برما کے مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بلکہ یہ تصویر تھائی لینڈ کے ٹک بائی واقعے کی ہے۔جو 2004 میں پیش آیا تھا۔

Result:Misplaced/PartlyFalse

Sources

Dawn:https://epaper.dawn.com/DetailNews.php?StoryText=26_10_2019_013_005

Aljazeera:https://www.aljazeera.com/news/2019/10/25/muslims-in-south-thailand-mark-15-years-since-tak-bai-massacre

AFP:https://www.afpforum.com/AFPForum/Search/ViewMedia.aspx?mui=1&hid=A70F1565DCBC2C9E06DEC9C844944CAC8529F020EC86DB694EA13F40F8ED02CACB7BE6C494404B5E

وٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔

 9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular