Authors
Claim
کرناٹک کے ریلوے ٹریک پر پتھر رکھتے پکڑا گیا مسلم سماج کا لڑکا۔
Fact
ویڈیو 5 سال پرانی ہے اور ویڈیو کے ساتھ کیا گیا دعویٰ فرضی ہے۔ اس میں کسی بھی طرح کا فرقہ وارانہ رنگ نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کیا گیا، جس میں ریلوے اسٹاف ایک نابالغ بچے کو زدوکوب کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ صارفین ویڈیو کو حالیہ ٹرین حادثے اور فرقہ وارانہ رنگ دے کر شیئر کر رہے ہیں۔
کئی ہندی نیوز ویب سائٹ نے بھی وائرل ویڈیو کو تازہ ترین اور کرناٹک کا بتاکر اپنی خبروں میں شائع کیا ہے۔
Fact Check/Verification
اویسم اسکرین شارٹ کی مدد سے ہم نے ویڈیو کے ایک فریم کو گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ جہاں ہمیں ریلوے ٹریک پر پتھر والی ہوبہو ویڈیو 24 اپریل 2018 کو شیئر شدہ ‘آشیش رگھوونشی’ نام کے ایک فیس بک پیج پر ملی۔ یہاں سے یہ واضح ہوا کہ ویڈیو پرانی ہے، لیکن اس حوالے سے کوئی بھی میڈیا رپورٹس ہمیں موصول نہیں ہوئی۔
پھر ہم نے ویڈیو کا تفصیلی جائزہ لیا۔ ویڈیو میں ریلوے ملازمین اور بچے کی گفتگو میں سنا جا سکتا ہے کہ بچہ خود کو دیونگر کا رہائشی بتا رہا ہے۔ مزید برآں اس کے کنڑ لہجے سے پتا چلتا ہے کہ یہ کلیان کرناٹک اور کلبرگی کے علاقے سے ہے۔ یہاں سے ایک سراگ لیتے ہوئے ہم نے گوگل پر “دیونگر”، کلبرگی” اور “کرناٹک” کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں کلبرگی ریلوے اسٹیشن کے نزدیک دیونگر نامی جگہ ملی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اسی علاقے میں پیش آیا ہوگا۔
نیوز چیکر نے روز نامہ پرجاوانی کلبرگی کے سینئر نمائندے منوج کمار گڈی سے رابطہ کیا، جنہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ ویڈیو 2018 کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “اس معاملے میں کوئی شکایت درج نہیں کی گئی تھی”۔
مزید معلومات کے لئے ہم نے کلبرگی کے واڑی ریلوے اسٹیشن کے سب انسپکٹر ایم پاشا سے رابطہ کیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ “یہ ویڈیو 2018 کی ہے اور اس معاملے میں کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا”۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ “بچے کھیل-کھیل میں ریلوے کی پٹریوں پر پتھر رکھ دیتے ہیں، یہ کوئی سنجیدہ بات نہیں ہے۔ پرانی ویڈیو نے اڈیشہ ریل حادثے کے بعد سے لوگوں کا دھیان اپنی طرف کھینچ لیا ہے، یہاں تک کہ ریلوے پولس کے سینیئر حکام نے بھی اس ویڈیو سے متعلق معلومات طلب کی ہے”۔
یہ بھی پڑھیں: بالاسور ٹرین حادثے کے قریب موجود مندر کی تصویر، مسجد کا بتاکر کی گئی شیئر
Conclusion
اس طرح ہماری تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ وائرل ویڈیو کم از کم 5 سال پرانی ہے اور اس کے ساتھ کیا گیا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ اس معاملے میں کسی بھی طرح کا فرقہ وارانہ رنگ نہیں ہے اور نا ہی حالیہ دنوں میں ریلوے ٹریک کو جان بوجھ کر توڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔
Result: Missing Context
Sources
Facebook post by aashish.raghuvanshi.1 on 24 April 2018
Conversation With Manoj Kumar Guddi, Senior Correspondent, Prajavani Daily Kalaburagi
Conversation With M. Pasha, Police Sub Inspector of Wadi Railway Station
Self Analysis
(اس آرٹیکل کو کنڑ زبان سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے، جسے اشورا نے فیکٹ چیک کیا تھا)
نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبر کی تحقیق، ترمیم یا دیگر تجاویز کے لئے ہمیں واہٹس ایپ نمبر 9999499044 پر آپ اپنی رائے ارسال کرسکتے ہیں۔